“مجھے احساس ہوا کہ یہ پاکستان ہم عوام کا گھر نہیں ہے،یہ کسی اور کا ہے،یہ شاید جناح ہاؤس ( کورکمانڈر ہاؤس ) ہے جس میں نہ تو جناح رہ سکتے ہیں نہ عوام رہ سکتے ہیں۔”مطیع اللہ جان
مطیع اللہ جان کی یہ تحریر ایک گہرے سماجی اور سیاسی احساس کو بیان کرتی ہے جو پاکستان کے عوام کی محرومیوں اور ان کے حقوق کے حوالے سے پیدا ہوا ہے۔ وہ اس بیان کے ذریعے عوامی مسائل، ملک کی حکومتی پالیسیوں، اور عوام کی حالت زار کی عکاسی کرتے ہیں۔
تحریر کا مفہوم:
عوامی حقوق کی کمی: یہ جملہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں عوام کو اپنے ہی ملک میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، اور ان کے مسائل کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
طاقتور طبقہ اور عوامی ملکیت: جناح ہاؤس (کورکمانڈر ہاؤس) ایک علامتی حوالہ ہے جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی اہم اور قیمتی جگہیں، وسائل، اور اختیارات عوام کی بجائے ایک طاقتور طبقے کے قبضے میں ہیں۔ یہ طاقتور طبقہ عوامی مفادات کے تحفظ کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔
جناح کی فکر سے انحراف: قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے بانی تھے اور انہوں نے ایک ایسا ملک خواب دیکھا تھا جہاں تمام شہری برابر ہوں، لیکن یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آج کا پاکستان ان کے خوابوں کی تعبیر نہیں بلکہ ان کے اصولوں کے برعکس ہے۔
عوامی اور اشرافیہ کا تضاد: “جناح ہاؤس” اس تضاد کی علامت بن چکا ہے جہاں نہ قائداعظم کی فکر کو جگہ ملتی ہے اور نہ ہی عام عوام کو۔ یہ جملہ معاشرتی تفریق اور عوامی مشکلات پر روشنی ڈالتا ہے۔
نتیجہ:
مطیع اللہ جان کا یہ بیان پاکستان کے سماجی ڈھانچے پر تنقید کرتا ہے اور عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا عوامی شعور اجاگر کرنے کا عمل ہے، جو لوگوں کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں سوچنے اور ان کے لیے آواز اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔
Leave a Comment